توہین رسالت کی سنگینی اور گستاخوں کا انجام گستاخوں کا عبرتناک انجام

 


توہین رسالت کی سنگینی اور گستاخوں کا انجام گستاخوں کا عبرتناک انجام

أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ.

[سورة التوبة 63]

کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کامقابلہ کرے (ان سے عداوت رکھے اور توہین و تمسخر کا نشانہ بنائے تو) اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیگا اور یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّهَ قَالَ : مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّافَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ۔ (صحیح بخاري : 6502)

رسول اللہﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے.

تو پھر جو بدبخت شخص اولیاء و انبیاء بلکہ پوری کائنات کے سردار محمد رسول اللہﷺ کی گستاخی اور توہین کرتے ہوئے ایذاء رسانی کرے تو وہ کتنا بڑا مجرم ہوگا ! اللہ تعالی کا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے پھر یقینا وہ دنیا و آخرت میں ذلت، رسوائی ، لعنت اور عذاب الیم کا مستحق ہوگا اور اپنے بدترین انجام کو پہنچ کر رہیگا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالی نے گستاخان رسول کو ہر دور میں نشانہ عبرت بنایا ہے ذیل میں بعض کا ذکر کیا جاتا ہے :

ابولہب کا عبرتناک انجام

یہ نبی کریم ﷺ کا سگاچچا تھا اور آپ کابڑا دشمن تھا ابولہب آپﷺ سے بری عداوت رکھتا تھا جب نبی مکرمﷺ نےکوہ صفا پرچڑھ کرلوگوں کو جمع کیا اور انہیں توحید کی دعوت دی تو سب سے پہلے ابولہب نے کہاتھا:

تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ، أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا ؟

توبرباد ہوجائے کیاتونے ہمیں یہ سنانے کے لئے جمع کیاتھا؟(نعوذباللہ من ذلک)اس پر خالق ارض وسماء نےاس کی تباہی وبربادی کااعلان فرماتے ہوئےپوری ایک سورت اس کی مذمت میں نازل فرمائی:

﴿ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ*مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ*سَيَصْلَى نَاراً ذَاتَ لَهَبٍ*وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ* فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ ﴾

 ابو لہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوں اور وہ (خود بھی) ہلاک ہو. نہ اس کا مال اس کے کسی کام آیا اور نہ وہ جو اس نے کمایا( یعنی رئیسانہ حیثیت اور اولاد)۔ جلد ہی وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔ اوراس کی بیوی ،جو ایندھن اٹھائے پھرتی تھی ( یعنی لوگوں کے درمیان آگ لگاتی پھرتی تھی) اس کی گردن میں کجھور کی بٹی ہوئی رسی ہوگی (جسکے ذریعے جہنم میں گھسیٹی جائے گی۔) (صحيح بخاري: 4770)

دنیا میں توابولہب کاحال یہ ہوا کہ اس کوزہریلی قسم کی ایک بیماری یاچھالہ (العدسہ) نکلاجوپورے جسم میں پھیل گیا ہرجگہ سے بدبودار پیپ بہنے لگی گوشت گل گل کرگرنے لگا ،اس کے بیٹوں نے اسے گھر سے باہرپھینک دیا اور اس نے تڑپتے تڑپتے جان دیدی اس کی لاش تین دن تک یونہی دھوپ میں گلتی سڑتی رہی اور لوگ اس کے تعفن اور بدبوسے تنگ آگئےاور اس کے بیٹوں کو لعنت ملامت کرنے لگے تو انہوں نے چند حبشی غلاموں سے گڑھا کھدوایا اورلکڑیوں سے اس کی لاش کو دور سے ہی دھکیل کر اس گڑھے میں پھینک دیا اور اوپر سے مٹی ڈال دی(اورآخرت کاعذاب تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے)

(المستدرك للحاكم: ٥٤٠٣. طبراني كبير.  )

عتبہ (یا لھب) ابو لھب کے گستاخ بیٹے کا انجام

ابن عساکر نے ذکر کیاہے کہ ابو لہب اور اس کا بیٹا عتبہ (یا لھب) شام کے سفر کی تیاریاں کرنے لگے اس کے بیٹے نے کہا سفر میں جانے سے پہلے ایک مرتبہ ذرا محمد (ﷺ) کے اللہ کو ان کے سامنے گالیاں تو دے آؤں چنانچہ یہ آیا اور کہا اے محمد جو قریب ہوا اور اترا اور دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک آگیا میں تو اس کا منکر ہوں (چونکہ یہ ناہنجار سخت بےادب تھا اور بار بار گستاخی سے پیش آتا تھا) رسول اللہﷺکی زبان سے اس کے لئے بد دعا نکل گئی کہ: اللّٰہُمَّ سَلِّطْ عَلَیْہِ کَلْباً مِّنْ کِلَابِک. باری تعالیٰ اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مقرر کر دے، یہ جب لوٹ کر اپنے باپ ابولہب کے پاس آیا اور ساری باتیں کہہ سنائیں تو اس نے کہا بیٹا اب مجھے تو تیری جان کا اندیشہ ہوگیا اس کی دعا رد نہ جائے گی، اس کے بعد یہ قافلہ یہاں سے روانہ ہوا شام کی سر زمین میں ایک راہب کے عبادت خانے کے پاس پڑاؤ کیا راہب نے ان سے کہا یہاں تو درندے بھیڑئیے اس طرح پھرتے ہیں جیسے بکریوں کے ریوڑ تم یہاں کیوں آگئے ؟ ابو لہب یہ سن کر ٹھٹک گیا اور تمام قافلے والوں کو جمع کر کے کہا دیکھو میرے بڑھاپے کا حال تمہیں معلوم ہے اور تم جانتے ہو کہ میرے  کچھ حقوق تم پر ہیں آج میں تم سے ایک عرض کرتا ہوں امید کرتا ہوں کہ تم سب اسے قبول کرو گے بات یہ ہے کہ مدعی نبوت (رسول اللہ ﷺ) نے میرے جگر گوشے کے لئے بد دعا کی ہے اور مجھے اس کی جان کا خطرہ ہے تم اپنا سب سامان و اسباب اس عبادت خانے کے پاس جمع کرو اور اس کے اوپر میرے پیارے بچے کو سلاؤ اور تم سب اس کے اردگرد پہرا دو۔ لوگوں نے اسے منظور کرلیا۔یہ اپنے سب جتن کر کے ہوشیار رہے کہ اچانک ایک شیر آیا اور سب کے منہ سونگھنے لگا جب سب کے منہ سونگھ چکا اور گویا جسے تلاش کر رہا تھا اسے نہ پایا تو پچھلے پیروں ہٹ کر بہت زور سے چھلانگ لگا کر اس مچان پر پہنچ گیا وہاں جا کر اس کا بھی منہ سونگھا اور گویا وہی اس کا مطلوب تھا پھر تو اس نے اس کے پرخچے اڑا دئیے، چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، اس وقت ابو لہب کہنے لگا اس کا تو مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ محمد (ﷺ) کی بد دعا کے بعد یہ بچ نہیں سکتا۔(تفسیر ابن کثیر سورت النجم ۔ أ‍‍‍‍‍‍ ‍ا‍‍‍‍ ‍‍‍‍‍‍‍ (٣٨/٣٠٢) صححه الحاكم : ٣٩٨٤. ووافقه الذهبي)

ابو جھل کا بدترین انجام

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : ابوجہل نے کہا : کیا محمد(ﷺ) تم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں؟(یعنی نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں؟(سیدنا ابو ہریرہ tنے) کہا : تو کہا گیا : ہاں۔ چنانچہ اس نے کہا : لات اور عزیٰ کی قسم! اگر میں نے ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں ان کی گردن کو روندوں گا یا ان کے چہرے کو مٹی میں ملاؤں گا (العیاذ باللہ! ) کہا : پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے وہ آپ کے پاس آیا اور یہ ارادہ کیا کہ آپ کی گردن مبارک کو روندے ( سیدنا ابوہریرہ t نے ) کہا : تو وہ انھیں اچانک ایڑیوں کے بل پلٹتا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھوں ( کو آگے کر کے ان ) سے اپنا بچاؤ کرتا ہوا نظر آیا ۔ ( ابوہریرہ t نے) کہا : تو اس سے کہا گیا : تمھیں کیا ہوا ؟تو اس نے کہا : میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق اور سخت ہول ( پیدا کرنے والی مخلوق ) اور بہت سے پر تھے ۔ تو رسول اللہﷺ نےفرمایا : اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کے ایک ایک عضو کو اچک لیتے۔

(صحيح مسلم : 2797)

سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : بدر کی لڑائی میں، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا، تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نوعمر لڑکے (معاذ اور معوذ) تھے۔ میں نے آرزو کی کاش! میں ان سے زبردست زیادہ عمر والوں کے بیچ میں ہوتا۔ ایک نے میری طرف اشارہ کیا، اور پوچھا چچا! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے؟ لڑکے نے جواب دیا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہو گا، مر نہ جائے، مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں ( کفار کے لشکر میں ) گھومتا پھر رہا تھا۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے، وہ سامنے ( پھرتا ہوا نظر آ رہا ) ہے۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو خبر دی، نبی کریمﷺ نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے؟ دونوں نوجوانوں نے کہا کہ میں نے قتل کیا ہے۔ اس لیے آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی تلواریں تم نے صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر نبی کریمﷺ نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے۔۔۔(صحیح بخاری : 3141)

سرداران قریش کا انجام

رسول اللہﷺ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ قریش اپنی مجلس میں ( قریب ہی ) بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ان میں سے ایک قریشی بولا اس ریاکار کو نہیں دیکھتے؟ کیا کوئی ہے جو فلاں قبیلہ کے ذبح کئے ہوئے اونٹ کا گوبر، خون اور اوجھڑی اٹھا لائے۔ پھر یہاں انتظار کرے۔ جب یہ ( نبی کریمﷺ ) سجدہ میں جائے تو گردن پر رکھ دے ( چنانچہ اس کام کو انجام دینے کے لیے ) ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا اور جب آپﷺ سجدہ میں گئے تو اس نے آپﷺ کی گردن مبارک پر یہ غلاظتیں ڈال دیں۔ نبی کریمﷺ سجدہ ہی کی حالت میں سر رکھے رہے۔ مشرکین ( یہ دیکھ کر ) ہنسے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ ایک شخص ( غالباً ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے۔ وہ ابھی بچی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا دوڑتی ہوئی آئیں۔ نبی کریمﷺ اب بھی سجدہ ہی میں تھے۔ پھر (فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ) ان غلاظتوں کو آپﷺ کے اوپر سے ہٹایا اور مشرکین کو برا بھلا کہا۔ نبی کریمﷺ نے نماز پوری کر کے فرمایا : یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔“ پھر نام لے کر کہا یا اللہ! عمرو بن ہشام (ابوجہل)، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ ابن ولید کو ہلاک کر۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! میں نے ان سب کو بدر کی لڑائی میں مقتول پایا۔ پھر انہیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کنویں والے اللہ کی لعنت کے حقدار بن گئے۔(اور رحمت سے دور کر دئیے گئے)(صحیح بخاری: 520)

بعض گستاخوں کا بدترین انجام

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں جو ارشاد باری تعالی ہے کہ:  إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ۔

(الحجر: ۹۵)

تحقیق ہم آپ کی طرف سے تمسخر کرنے والوں کو کافی ہیں۔

رسول اکرم ﷺ سے تمسخر کرنے والے ولید بن مغیرہ، اسود بن عبدیغوث الزہری، قبیلہ اسد بن عبدالعزی کا ابوزمعہ اسود بن مطلب، حارث بن عیطل السہمی اور عاص بن وائل یہ پانچ رؤساء تھے۔ ایک مرتبہ جبریل امین علیہ السلام تشریف لائے تو رسول اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں شکوہ کیا اور ولید کو دکھادیا تو جبریل علیہ السلام نے اس کے پاؤں کی رگ کی جانب اشارہ کیا آپ ﷺ نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ جبریل نے جواب دیا کہ آپ اس کے شر سے محفوظ ہوگئے۔ جبریل امین کو اسود کی طرف اشارہ کر کے بتایا تو جبریل علیہ السلام نے اس کی آنکھوں کی جانب اشارہ کیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ: آپ نے ایسا کیوں کیا؟ جبریل نے فرمایا: آپ اس کے شر سے بھی محفوظ ہوگئے۔ آپﷺ نے جبریل کو ابوزمعہ کی طرف اشارہ کر کے بتایا جبریل نے اس کے سر کی جانب اشارہ کیا آپ ﷺ نے پوچھا: آپ نے یہ کیا کیا؟ جبریل نے فرمایا: آپ ﷺ اس کے شر سے بھی محفوظ ہوگئے۔ اس کے سر یا پیٹ کی جانب اشارہ کیا اور آپ سے فرمایا کہ اس کے شر سے بھی آپ محفوظ ہوگئے۔

آپ ﷺ کے پاس سے عاص گذرا، آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کر کے بتایا تو جبریل علیہ السلام نے اس کے پاؤں کی ایک طرف اشارہ کیا اور آپ ﷺ سے فرمایا کہ اب آپ اس کے شر سے بھی محفوظ ہوگئے ہیں۔

 اس کے بعد ولید قبیلہ خزاعہ کے ایک آدمی کے پاس سے گذرا جو اپنے تیر میں پر لگارہا تھا تو تیر اس کے پاؤں میں لگ گیا اور رگ کٹ گئی۔ اسود بن مطلب اندھا ہوگیا۔ اسود بن عبد یغوث کے سر کے اندر زخم پیدا ہوگئے جس سے وہ ہلاک ہوگیا، حارث بن عیطل کے پیٹ میں زرد پانی جمع ہوگیا یہاں تک کہ اس کے منہ سے پاخانہ نکلنے لگا اور اسی سے اس کی موت واقع ہوئی۔ اور عاص کے سر میں کانٹا چبھ گیا تو سر میں پیپ بھر گئی اور اسی سے وہ جہنم واصل ہوا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ طائف کی طرف اپنی سواری گدھے پر سوار ہو کر روانہ ہوا تو ایک جگہ اترتے وقت اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا اور اسی سے وہ جہنم رسید ہوا۔

 (السیرۃ النبویۃ للامام الذھبی ۱؍۱۸۳ المطبوع فی اول سیر اعلام النبلاء. المعجم الاوسط للطبراني :٤٩٨٦ السنن الكبرى للبيهقي : ١٧٧٣١. صحيح السيرة النبوية للالباني ص 220.221 )

غلاف کعبہ سے چمٹا ہوا گستاخ

جب فتح مکہ کا دن آیا تو رسول اللہﷺ نے تمام لوگوں کو امان دے دی، سوائے چار مرد اور دو عورتوں کے، اور فرمایا: ”انہیں قتل کر دو چاہے تم انہیں کعبہ کے پردے سے چمٹا ہوا پاؤ“، یعنی عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ۔ عبداللہ بن خطل کو اس وقت پکڑا گیا جب وہ کعبے کے پردے سے چمٹا ہوا تھا۔(نبی کریم ﷺ کے حکم کے مطابق اسے اسی حالت میں قتل کردیا گیا یہ آپ کی شان میں گستاخیاں اور ہجو کیا کرتا تھا) مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں پایا تو اسے قتل کر دیا۔ عکرمہ (بھاگ کر ) سمندر میں ( کشتی پر ) سوار ہو گئے، تو اسے آندھی نے گھیر لیا، کشتی کے لوگوں نے کہا: سب لوگ خالص اللہ کو پکارو اس لیے کہ تمہارے یہ معبود تمہیں یہاں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ عکرمہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر سمندر سے مجھے سوائے توحید خالص کے کوئی چیز نہیں بچا سکتی تو خشکی میں بھی اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ اے اللہ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو مجھے میری اس مصیبت سے بچا لے گا جس میں میں پھنسا ہوا ہوں تو میں محمد (ﷺ ) کے پاس جاؤں گا اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور میں ان کو مہربان اور بخشنے والا پاؤں گا، چنانچہ وہ آئے اور اسلام قبول کر لیا۔(سنن نسائی : 4067)

گستاخ عورت کا انجام

ایک نابینا صحابی کے پاس ایک لونڈی تھی جس کے بطن سے ان کی اولاد بھی تھی جو نبی اکرمﷺ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی حسب معمول ایک رات اس نے آپﷺ کی ہجو شروع کی، اور آپ کو گالیاں دینے لگی، تو اس (نابینے ) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کر دیا، جب صبح ہوئی تو آپﷺ سے اس حادثہ کا ذکر کیا گیا، آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا، اور فرمایا: جس نےیہ قتل کیا ہے میں اسے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے تو وہ نابینا کھڑا ہو گیا اور لوگوں کی گردنیں پھاندتے اور ہانپتے کانپتے آ کر آپﷺ کے سامنے بیٹھ گیا، اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول میں اس کا مالک ہوں، وہ آپ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، میں اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی صورت سے باز نہیں آتی تھی، میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بچے بھی ہیں، وہ مجھے بڑی محبوب تھی تو کل رات حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے لگی، اور ہجو کرنی شروع کی، میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگو! سنو تم گواہ رہنا کہ اس عورت کا خون ضایع ہوگیا ۔

(سنن ابوداؤد : 4361)

گستاخ کعب بن اشرف کا قتل

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہﷺ نے فرمایا : کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے۔“ اس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں؟ آپ نے فرمایا ”ہاں مجھ کو یہ پسند ہے۔“ انہوں نے عرض کیا، پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ اب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا، یہ شخص ( اشارہ آپﷺ کی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں۔ اس پر کعب نے کہا، ابھی آگے دیکھنا، اللہ کی قسم! بالکل اکتا جاؤ گے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کر لی ہے۔ اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔ تم سے وسق یا دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں… کعب بن اشرف نے کہا، ہاں، میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے پوچھا، گروی میں تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا، اپنی عورتوں کو رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ اس نے کہا، پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا، ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر ان کو رہن رکھ دیا گیا تھا، یہ تو بڑی بے غیرتی ہو گی۔ البتہ ہم تمہارے پاس اپنے ہتھیار (اسلحہ) گروی رکھ سکتے ہیں۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے۔ ان کے ساتھ ابونائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جا کر انہوں نے آواز دی۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس وقت ( اتنی رات گئے ) کہاں باہر جا رہے ہو؟ اس نے کہا، وہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابونائلہ ہے۔ اس کی بیوی نے یہ بھی کہا کہ مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے بھائی محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں۔ مگر کسی شریف کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے۔ محمد بن مسلمہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور بھی تھے۔۔۔ اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے ( سر کے ) بال ہاتھ میں لے لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہو جانا اور اسے قتل کر ڈالنا۔۔۔ آخر کعب بن اشرف چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا۔ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا، آج سے پہلے اس سےزیادہ عمدہ خوشبو میں نے کبھی نہیں سونگھی ! کعب اس پر بولا، میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں۔تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا، کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی مجھے اجازت ہے؟ اس نے کہا، سونگھ سکتے ہو۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا۔ پھر انہوں نے کہا، کیا دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے اس مرتبہ بھی اجازت دے دی۔ پھر جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا اور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی اطلاع دی۔

(صحیح بخاری : 4037.)

ابو رافع یہودی کا قتل

رسول اللہﷺ نے ابورافع یہودی ( کے قتل ) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا۔ یہ ابورافع نبی کریمﷺ کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا۔ جب اس کے قلعہ کے قریب یہ پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ اور لوگ اپنے مویشی لے کر ( اپنے گھروں کو ) واپس ہو چکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو میں ( اس قلعہ پر ) جا رہا ہوں اور دربان پر کوئی تدبیر کروں گا۔ تاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہوجاؤں۔ چنانچہ وہ ( قلعہ کے پاس ) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہو۔ قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہو چکے تھے۔ دربان نے (اپنے لوگوں کو) آواز دی، اے اللہ کے بندے! اگر اندر آنا ہے تو جلد آ جا، میں اب دروازہ بند کر دوں گا۔ ( عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے کہا ) چنانچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی کارروائی دیکھنے لگا۔ جب سب لوگ اندر آ گئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اب میں ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور میں نے انہیں لے لیا، پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا۔ ابورافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جا رہی تھیں اور وہ اپنے خاص بالاخانے میں تھا۔ جب داستان گو اس کے یہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کمرے کی طرف چڑھنے لگا۔ میں جتنے دروازے اس تک پہنچنے کے لیے کھولتا تھا انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہو جائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ ( سو رہا ) تھا مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی، یا ابا رافع؟ وہ بولا کون ہے؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کر سکا۔ وہ چیخا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا۔ پھر دوبارہ اندر گیا اور میں نے آواز بدل کر پوچھا، ابورافع! یہ آواز کیسی تھی؟ وہ بولا تیری ماں غارت ہو۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ( آواز کی طرف بڑھ کر ) میں نے تلوار کی ایک ضرب اور لگائی۔ انہوں نے بیان کیا کہ اگرچہ میں اسے زخمی تو بہت کر چکا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ مجھے اب یقین ہو گیا کہ میں اسے قتل کر چکا ہوں۔ چنانچہ میں نے دروازے ایک ایک کر کے کھولنے شروع کئے۔ آخر میں ایک زینے پر پہنچا۔ میں یہ سمجھا کہ زمین تک میں پہنچ چکا ہوں ( لیکن ابھی میں پہنچا نہ تھا ) اس لیے میں نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور نیچے گر پڑا۔ چاندنی رات تھی۔ اس طرح گرنے سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اسے اپنے عمامہ سے باندھ لیا اور آ کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ معلوم کر لوں کہ آیا میں اسے قتل کر چکا ہوں یا نہیں؟ جب مرغ نے آواز دی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے کھڑے ہو کر پکارا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابورافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ چلنے کی جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ابورافع کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی اطلاع دی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا اور پاؤں اتنا اچھا ہو گیا جیسے کبھی اس میں مجھ کو کوئی تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔

(صحیح بخاری : 4039. 4040 )

گستاخ عیسائی اور کتا

مغل بادشاہوں میں سے کوئی امیر عیسائی ہوگیا تھا اس کے پاس ایک مرتبہ بہت بڑی تقریب میں سرکردہ عیسائی مبلغین بھی شریک ہوئے۔ ایک عیسائی مبلغ نے موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھانے کی خاطر وعظ و نصیحت شروع کی اور نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی اور توہین شروع کردی ۔ وہاں قریب ہی ایک شکاری کتا بھی بندھا ہوا تھا۔ کتے نے رسی تڑواکر اس عیسائی مبلغ پر حملہ کرکے شدید زخمی کردیا، بہت ہی جد و جہد اور تگ و دو کے بعد لوگوں نے کتے کو اس سے علٰیحدہ کیا ۔ مجمع میں سے کچھ لوگوں نے اُس عیسائی سے کہا کہ کہیں کتے نے تیری اس گستاخی کی وجہ سے تو تجھ پر حملہ نہیں کیا؟

عیسائی نے کہا بالکل نہیں، اصل میں یہ ایک غیرت مند کتا ہے، میں نے بات کرتے ہوئے اس کی طرف ہاتھوں سے اشارہ کیا تھا، اس نے سمجھا میں اِسے مارنا چاہتا ہوں، اس لیئے یہ مجھ پر حملہ آور ہو گیا۔

اس کے بعد عیسائی نے دوبارہ شانِ رسالت میں گستاخی و توہین شروع کردی، اب کی بار کتے نے رسی تڑا کر عیسائی کی گردن دبوچ لی اور اُس وقت تک نہ چھوڑا جب تک وہ جہنم واصل نہ ہوگیا۔ اِس واقعہ کی وجہ سے چالیس ہزار لوگ مسلمان ہوگئے۔(الدرر الکامنۃ للحافظ ابن حجر رحمہ اللہ ج 3 ص 202)

امت مسلمہ اور مقام رسول

(قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ)

[سورة التوبة 24]

  ( اے نبی!آپ مسلمانوں سے ) کہہ دیجئے کہ اگرتمہیں اپنے باپ،اپنے بیٹے،اپنے بھائی،۱پنی بیویاں،اپنے کنبے قبیلے والے اور وہ مال واسباب جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے ماند پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں  ، اللہ اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم(عذاب) لے آئے اور اللہ نافرمان فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔

(النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ .[سورة احزاب 6]

نبی تو ایمان والوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ  لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ .

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس وقت تک تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا جب تک مجھ سے اپنی اولاد والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرے ۔

 (صحیح بخاری : 14. 15 )

صحابہ کرام نبی کریمﷺ کے ساتھ تھے اور آپ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوائے میری اپنی جان کے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ ( ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ومحبوب ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔

(صحیح بخاری : 6632)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے تھے مجھے آپ کا اسلام لانا زیادہ پسند تھا اپنے والد خطاب کے اسلام لانے سے کیونکہ رسول اللہﷺ کی خواہش تھی کہ آپ اسلام قبول کرلیں ۔(تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 79. البداية والنهاية ج 3 ص 363)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ لوگوں یعنی صحابہ کرام کو نبی کریمﷺ سے کتنی محبت تھی ؟ جواب دیا کہ اپنی اولاد آباء و اجداد اپنی ماؤں حتی کہ سخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے زیادہ ہم اللہ کے رسولﷺ سے محبت کرتے تھے۔ (الشفا للقاضی عیاض ج 2 ص 567)

قرآن و حدیث اور اسلاف امت سے اس طرح کے بیشمار دلائل موجود ہیں جن کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے ۔ جب اہل اسلام کا پیغمبر اسلام سے اس طرح کا تعلق شرعی مقصود ومطلوب ہو تو وہ کسی صورت بھی نبی مکرم علیہ السلام کی ذرہ برابر بھی کوئی توہین گستاخی اور تمسخر برداشت نہیں کر سکتے .

شاتم رسول کی شرعی سزا

(وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ)[سورة التوبة 12]

اوراگر وہ معاہدہ کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑدیں اور دین میں عیب نکالیں تو کفر کے ان ائمہ و علمبرداروں سے جنگ کرو ، ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں( اوراسلئے ان سے جنگ کرو) کہ وہ باز آجائیں۔

معلوم ہوا کہ کفار سے جنگ کا ایک سبب دین میں طعنہ اور عیب جوئی بھی ہے اور نبی کریمﷺ کی توہین گستاخی اور تمسخر سے بڑھ کر دین میں طعن اور عیب جوئی اور کیا ہوسکتی ہے !!

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ یہاں اللہ تعالی نے دین میں عیب تمسخر اور طعنہ دینے والوں کو ائمۃ الکفر یعنی علمبرداران کفر کا نام دیا ہے تو ہر دین میں طعنہ زنی کرنے والا کفر کا امام ہے…تو اسکا قتل واجب ہے ۔(الصارم المسلول ص 17 )

ایک دفعہ کسی محفل میں ایک شخص نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بدکلامی اور توہین والا رویہ اختیار کیا تو صحابی رسول سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے خلیفۃ المسلمین! مجھے اجازت دیں کہ اس گستاخ کو قتل کردوں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں جھڑک کر فرمایا : إِنَّهَا لَيْسَتْ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

یہ بیشک مقام رسول اللہﷺ کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے ۔ (سنن نسائی : 4076 ۔ابوداؤد : 4363)

خلیفہ ہارون رشید نے امام رحمہ اللہ سے نبی کریم کو سب شتم کرنے والے شخص کے بارے میںسوال کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ بعض فقھاء کا خیال ہے کہ اسے کوڑے مارے جائیں گے تو امام صاحب غصہ میں فرمانے لگے نبی کریم کی گستاخی کے ہوتے ہوئےامت کے وجود وبقاء کا کیا جواز باقی رہتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ شاتم نبی کو قتل کیا جائے گا اور شاتم صحابی کو کوڑے لگائے جائیں گے۔( الشفا للقاضی عیاض ج 2 ص 492)

معلوم ہوا کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے ۔ خود نبی کریمﷺ نے گستاخوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ کعب بن اشرف اورابورافع کیلئے آپ نے یہ حکم دیا اور گستاخ عورت کے قتل پر اس کے خون کو رائیگان قرار دیا وغیرہ جیسا کہ ذکر کیا گیا ۔

صحابہ کرام اور دیگر اسلاف امت سے بھی یہ بات ثابت ہے ۔

یہاں بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ خود نبی کریمﷺ نے طائف والوں کو معاف کیا ۔ کچرہ ڈالنے والی عورت کو سزا نہ دی گستاخ منافقین کو قتل نہ کیا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو معاف کرنا آپﷺ کا ہی حق تھا جسے آپ خود اپنی حیات مبارکہ میں اختیار فرما سکتے تھے مگر آپﷺ کے اس حق کو آپ کے بعد دوسرا کوئی بھی اختیار نہیں کرسکتا ۔ تو شاتم رسول کیلئے شرعی قانون تو یہی ہے کہ اسے قتل کیا جائے ۔ اور حکمران طبقہ اس قانون پر عمل درآمد کروانے کا پابند اور ذمیدار ہے اگر وہ اس سزا کو نافذ نہیں کرتے تو وہ اللہ تعالی کے ہاں مجرم اور جواب دہ ہونگے ۔

توھین رسالت اور امت مسلمہ کی ذمیداری ۔

استاد المکرم فضيلۃ الشيخ محدث العصر علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ہمارے دشمن مختلف اسالیب سے مسلمانوں کو دکھ اور تکلیف پہنچانے اور کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس کی ایک کڑی رسول اللہﷺ کے خاکے بناکر ان کی اہانت کا ارتکاب کرکے ہمیں دکھ پہنچانا مقصود ہے۔ اس کی پرزور مذمت کی جانی چاہیئے اور ہمارا اس میں یہ کردار ہونا چاہیئے کہ :

(1) ہم اپنے رسول پاکﷺ کی سیرت طیبہ کو عام کریں  انہی وسائل کو بروئے کار لاکر ہم بھی آپ کے اسوہ و سیرت طیبہ کو بیان کریں اور عام کریں تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ جس نبی کی اہانت کی جارہی ھے اسکا مقام و مرتبہ کیا ہے۔

 (2) تعلق باللہ یعنی اللہ تعالی سے تعلق قائم کرنا  اور یہ گستاخ لوگ یقینا ہماری بد دعا کے مستحق ہیں :

(إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ[سورة الحجر 95]

اللہ تبارک و تعالی اس میں ان کیلیئے کافی ہے کہ وہی آپ کی کفایت کریگا ۔

 ہم اپنے آپ کی اصلاح کریں آپ کی سنت کو اپناکر اپنی اصلاح کرلیں جب ہم اپنی اصلاح کرلیں گے تو ہماری ایک قوت ہوگی اور ہماری قوت ان کی کمزوری ہوگی ۔ جب ہم نبی علیہ السلام کی سنت پر عمل نہیں کریں گے تو ہم کمزور پڑ جائینگے اور ہماری کمزوری ہمارے دشمنوں کی قوت ہوگی ، جب وہ اپنے آپ کو طاقتور محسوس کریں گے تو ہر طریقے سے ہمیں پریشان کرنے کی کوشش کریں گے اللہ تعالی نے یہ ایک نظام اور قانون ہمیں دیا ہے اسی میں ہماری بہتری اور قوت ھے : وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا.[سورة النساء 66]

اگر یہ صرف میرے رسول کی نصیحت کو اپنالیں تو ہر قسم کی خیر بھی دونگا اور دشمن کے مقابلے میں ثابت قدمی بھی عطا کردونگا، طاقت و قوت سے بھردونگا اور تمہاری قوت دشمنوں کی کمزوری ہوگی جب وہ کمزور ہونگے تو ایسی کوئی سازش نہیں کرسکیں گے جب تم کمزور پڑ جاؤ اور آپ کے اسوہ اور سنت پر عمل پیرا نہ ہو تو یہ آپ کی کمزوری اور ان کی طاقت ہوگی جب وہ طاقتور ہونگے تو اس قسم کے ہتھکنڈے اپنائینگے آپ کو پریشان کرنے لیئے دین اسلام کو نعوذباللہ بدنام کرنے کیلیئے۔ تو تعلق باللہ اگر گہرا ہو تو اللہ تعالی ان سب سے ہماری کفایت کریگا اسلیئے ہم اپنی اصلاح کریں ۔

(3) ہاں ایک اور طریقہ کار اپنایا جاسکتا جو لوگ اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے کر رہے ہیں ان کی مصنوعات سے مکمل بائیکاٹ کیا جائے  وہ اقتصادی کمزوری کو اپنی  ہلاکت تصور کرتے ہیں تو ان کا اگر اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے اور معاشی میدان میں ہم ان کی مصنوعات کو ترک کردیں تو اس سے بھی انہیں ایک ضعف اور کمزوری لاحق ہوگی تو وہ اس قسم کی سازشوں سے باز آجائیں گے ۔

(4) باقی کچھ لوگ اپنے ملک میں جلوس نکالنا،احتجاج کرنا اور مختلف عمارتوں کو نقصان پہنچانا،شیشے توڑنا،گاڑیوں کو جلانا…یہ سارے اعمال دین اسلام کے سراسر خلاف ہیں ہمیں صرف وہی کام کرنا چاہیئے جن کی اللہ نے ہدایت کی ھے اور وہ ہماری نبی علیہ السلام کی غلامی اور آپ کی اتباع میں ہے۔ تو صدق دل سے اس غلامی کی طرف آجاؤ اتباع کی طرف آجاؤ۔ اللہ تعالی تمہیں ایسا مضبوط کردیگا کہ دشمن تم سے کمزور ہوکر بھاگے گا۔ اور اس قسم کی سازشیں نہیں کرسکے گا، اللہ تعالی ہمیں ان افعال واعمال کی توفیق دے جو دین کے تقاضوں کے تحت آتے ہیں ۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد .

۔

 

No comments:

Powered by Blogger.